گذشتہ دنوں حکومتِ سندھ نے 3عدد JITs اپنی ویب سائیٹ پر شائع کی ہیں۔
1۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن رپورٹ 2۔ نثار مورائی رپورٹ 3۔ عزیر بلوچ رپورٹ
ان تمام رپورٹوں کے بعد ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ ان رپورٹوں میں جتنے بھیانک جرائم کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ان جرائم پر کون کارروائی کرے گا؟
1۔ حکومت ِ سندھ یا حکومتِ پاکستان؟؟؟
2۔ عدلیہ؟؟؟
3۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے( انتظامیہ)؟؟؟
یہاں پولیس، نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن کے ادارے موجود ہیں۔ جن کا بنیادی کام ہی جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی ہوتا ہے۔ان اداروں کا مقصدِ واحد و اول یہی ہے کہ معاشرہ ہر قسم کے جرم و فساد سے پاک رہے۔ سالانہ اربوں کے اخراجات ان اداروں پر حکومتیں قوم کے ٹیکس سے برداشت کرتی ہیں۔ پھر ان اداروں کو کارروائی کے لیے حکومتی یا عدلیہ کے اشارے کی کیا ضرورت ہونی چاہئیے؟
کیا یہ ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ان جرائم کے خلاف حرکت میں نہیں آ سکتے؟
کیوں کسی افسرِ اعلیٰ، وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعظم یا چیف جسٹس کے حکم کی ضرورت پڑتی ہے؟
کسی تھانیدار کو اپنے علاقے میں موجود کسی قتل، ڈاکے، چوری یا جرم کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے وزیرِ اعلٰی سے اجازت یا ہدایت لینی پڑتی ہے؟ کیوں؟
یا اسے کسی ایسی ہدایت کا انتظار کرنا چاہئیے؟
کیا جرم کے خلاف آخری حد تک جانا اس کا فرض نہیں ہے؟ اورکیا ایسا کرنا اس کے حلف کے مطابق نہیں ہے؟
کیوں انتظامیہ کسی مجرم کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے اپنے اعلیٰ افسران یا سیاسی نمائندوں کی ہدایات کی منتظر رہتی ہے؟
در اصل ایسا کرنا ان کی نوکری کا جزوِ لازم بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک ہولناک حقیقت ہے کہ یہاں تمام پوسٹیں صرف سیاسی اثر و رسوخ اور پیسے کے بل پر تفویض کی جاتی ہیں۔ میرٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا ۔ آپ اس کوئلے کی کان میں خود کو بچا کے رکھ ہی نہیں سکتے۔ یا یہ نظام ایک کان ِ نمک ہے جس میں بلآخر سب ہی نمک ہو جاتے ہیں۔ دراصل میرے پاکستان میں انصاف اور عدل ایک نایاب شے بنا دیے گئے ہیں۔ اسی لیے یہ سارے تماشے لگائے جاتے ہیں! اپنی روزی روٹی حرام کی جاتی ہے اور اپنے بیوی بچوں کو لقمہ حرام کھلایا جاتا ہے۔ وہ جو کہا گیا ہے سچ کہا گیا ہے کہ”انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے”۔
بلدیہ ٹاؤن کی رپورٹ ہی کو دیکھ لیں ۔ 2012کا واقعہ ہے، سیکڑوں معصوم لوگوں کی جان لینے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس واقعے کو برسوں گزر چکے مگر ابھی تک انصاف کے نام پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، کیس چل رہا ہے مگر نا کوئی سزا نا کسی مظلوم کی داد رسی ہی ہو سکی ہے۔ کسی مقتدر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان مظلوموں کو انصاف دلانے کی کوشش ہی کر لیتا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی جب جرم پوشی کرنے لگیں، جب سیاسی اور مالی مصلحتیں انصاف کی راہ میں حائل ہونے لگیں تو پھر انصاف ہونا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ہم ببول اگا کر گلابوں کی خواہش رکھتے ہیں۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب چلتی ہے تو پھر فرعون ہوں یا نمرود نشان ِعبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ مگر اللہ قادرِ مطلق ہے، اس کی بادشاہی زمین و آسمان میں ہے، وہ اپنے نظام ِ انصاف میں یکتا و منفرد ہے۔ پھر ڈرنا چاہئیے کہ اس کا نظامِ انصاف حرکت میں آیا تو کیا ہو گا؟ جو ہو گا پھر دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ پھر مہلت نہیں ملتی۔ انسان واقعی جاہل بھی ہے اور ظالم بھی!
Tagged: JIT, مقننہ, نثار مورائی, انتظامیہ, انصاف, بلدیہ ٹاؤن, سانحہ, عدل, عدلیہ, عزیر بلوچ
جواب دیں