غلامانہ خو

کہتے ہیں کہ اگر کوئی قوم کچھ صدیوں تک غلام رہے تو پھر اس قوم میں غلامی اتنی دیرپا ہو جاتی ہے کہ 100 سال کی غلامی کا اثر 1000 سال میں بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہماری قوم میں صدیوں کی محکومی کے بعد غلامی یوں رچ بس چکی ہے کہ ہم حکمرانوں کو بادشاہ سمجھتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کو شاہی خاندان سمجھتے ہیں۔ ان کی اولادیں شہزادے اور شہزادیاں سمجھے جاتے ہیں۔ انگریز یہاں سے چلے تو گئے مگر غلامی کو اس قوم کے خون میں یوں بسا گئے کہ اللہ کی پناہ! ہمارا موجودہ بیوروکریسی نظام انیسویں صدی کے انگریز کے بنائے قوانین پر ہی مشتمل ہے۔ ان قوانین میں اپنے معروضی حالات اور ضروریات کے مطابق کوئی معمولی سی تبدیلی بھی ہم نہیں لا سکے ابھی تک۔ چپڑاسی سے گورنر تک سارے عہدے انگریز کے بنائے گئے قانون کے مطابق ہیں۔ کمشنر اپنے ڈویژن کا مطلق العنان حکمران ہے۔ اس کے ماتحت صرف اسی کی خوشنودی کے لیے ہی کام کرتے ہیں، ملک و ملت کی فلاح و بہبود سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اپنے سے اوپر کا افسر خوش رکھنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ملک کا، قوم کا نقصان ہو تو کوئی پرواہ نہیں۔ افسرِ اعلیٰ کی خوشی زیادہ اہم ہے۔ اب اس کام کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کیا تا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے۔  عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والا سرکاری ملازم کس طرح عوام کو اپنی رعایا سمجھ لیتا ہے؟ ان کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے۔ ان کے مال کو اپنا مال سمجھ کے کھا لیتا ہے۔ کسی افسر سے ملنے جائیں تو اس کا چپڑاسی ہی بادشاہ بنا ہوتا ہے، آپ اس کو خوش کیے بنا افسر کے دفتر میں داخل بھی نہیں ہو سکتے۔
آج تک اس قوم کو یہ سمجھنے ہی نہیں دیا گیا کہ یہ نظام ایک حاکم قوم نے غلاموں کے لیے بنایا تھا ۔ اس نظام کے ہر ایک قانون میں حکمرانوں کے لیے چھوٹ اور غلاموں کے لیےسزا،  تحقیر اور ذلت لکھی گئی تھی کہ یہ نشانِ عبرت بنے رہیں۔ ہم نے نیا آئین بھی بنا لیا مگر عوام کی حکمرانی یا عوام کے لیے حکمرانی نہیں اپنا سکے کہ سزا و جزا کے سارے قوانین انگریز کے بنائے ہوئے ہی نافذ رہے۔ قوانین ہمیشہ زمینی حقائق اور معروضی ضروریات و حالات کے حساب سے وضع کیے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ترامیم اور تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ تبدیل ہوتا ہے تو وہ اوپر کے طبقے کی سرکاری مراعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی عوام کا بنیادی اور اولین حق ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں اس کی فراہمی حکمرانوں کا احسانِ عظیم سمجھا اور جتلایا جاتا ہے کہ شہنشاہِ معظم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔
عوام کے حقیقی مسائل صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو خود ان مسائل سے گذر چکا ہو یا گذر رہا ہو۔ جس کا  بچپن اور لڑکپن شہزادوں کی طرح گذرا ہو اس کو کیا احساس یا شعور کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ بھوک کیا ہوتی ہے ؟ بیماری کیا ہوتی ہے؟ جو ان حالات کے کرب سے کبھی گذرے ہی نا ہوں ان سے چارہ گری اور  مداوے کی کیا امید!۔

Tagged: , , , , , , , , ,

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: