تاریخ: 4 ستمبر سال 2020
خبر: کوئیٹہ کی ماڈل عدالت نے مشہور کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ مجید خان اچکزئی کو عدم ثبوت کی بناء پر ٹریفک سارجنٹ کے قتل کے مقدمے میں بری کر دیا۔
اللہ اکبر ۔۔۔۔۔اللہ کی عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ اس عدالت نے عدم شواہد کی بنا پر بریت کا فیصلہ دے دیا ہے۔
سارے ثبوتوں میں ایک ثبوت گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر موجود ملزم کا وڈیو میں نظر آنا ہے۔ اور یہ ایک نا قابلِ تردید ثبوت ہے۔ مگر وکلاء نے کہا اور عدالت نے مان لیا کہ یہ ملزم نہیں ۔۔۔۔ اس کیس سے نظامِ انصاف کی قلعی پھر کھل گئی ہے۔
پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ مجید اچکزئی ہی قاتل ہے۔ مگر اس ملک کا قانون ِ عدل و انصاف کہتا ہے کہ نہیں قاتل کوئی نامعلوم بندہ
ہے۔ کوئی فرشتہ، بھوت یا پھر ٹریفک سارجنٹ خود ؟؟؟یہاں تو وکیل یہ بھی ثابت کر سکتے تھے کے مجید اچکزئی کو تو گاڑی چلانی بھی نہیں آتی۔ مجید اچکزئی حادثے کے وقت مریخ کی سیر کرنے گیا ہوا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
سوچتا ہوں کہ اگر اسی وکیل/جج کا کوئی بھائی بیٹا اسی طرح کسی سردار کی گاڑی کے نیچے آکر مارا جائے تو پھر یہی وڈیو ثبوت اسے مجرم ثابت کر پاتا ؟؟؟ معزز جج اور ملزم کے وکلاء کا کوئی رشتہ ہوتا سارجنٹ سے تو پھر کہانی مختلف ہوتی۔ پھر ملزم سزائے موت سے بچ کر تو دکھاتا ذرا!۔ پھر انصاف و عدل کی بے رحم اور اندھی تلوار اس ملزم کو تختہ دار تک ضرور لے جاتی۔
کسی نے کہا کہ لواحقین دیت لے چکے ہیں۔۔۔ تو مقتول تو سرکاری ملازم تھا، دورانِ ڈیوٹی شہید ہوا، اسکی وارث تو سرکارِ وقت حکومتِ بلوچستان ہے، وہ کیسے اپنے ملازمین کے خون کا سودا کر سکتی ہے؟ اسے یہ حق اسے کیسے مل گیا؟ اور جو سرکار اپنے ملازمین کو انصاف نہیں دلا سکتی وہ عوام کے مال و جان کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے؟(اگر دیت/راضی نامہ ککی طرف جانا تھا تو پہلے سزا کا فیصلہ سناتے پھر راضی نامہ کرتے اور عدالت سے اپنا بندہ چھڑا لیتے )۔
Category Archives: متفرق
انصاف اور انصاف کا قتل
اب تو نوحہ یہی ہے کہ یہاں انصاف بکتا ہے۔ دام ہوں تو پھر آپ لوگوں کو قتل کر کے بھی آزاد گھوم سکتے ہیں۔
سردارعثمان خان بزدار وزیرِ اعلیٰ پنجاب
کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندہ تحصیل تونسہ شریف سے منتخب ایک سردار کو عمران خان پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیں گے۔ تحصیل تونسہ کی عوام سردار صاحب کے وزیرِ اعلیٰ بننے پر بہت خوش ہوئی تھی کہ ہمارے اپنے علاقے کا سردار وزیرِ اعلیٰ بن چکا ہے تو اب ہم سکھ کی سانس لیں گے مگر یہ ان کی خوش خیالی تھی!سردار صاحب میں لاکھوں خوبیاں ہونگی۔ ان کے مقدر کا ستارہ بھی بہت بلندی پر چمک رہا ہے۔ اللہ ان کو اور ترقی دے۔ لیکن گذشتہ 2 سال کی کارکردگی سے سردار صاحب عوام کو بہرحال متاثر نہیں کر سکے۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو ایک ایسے متحرک سیاستدان کی ضرورت ہے جو 24 گھنٹوں میں سے20 گھنٹے کام کرتا ہو۔جس کا ایک پاؤں سیالکوٹ تو دوسرا شاہوالی میں رہتاہو! جس کے جسم میں خون کی جگہ سیماب بھرا ہو! پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے۔ تحریک انصاف کو اپنے وعدے کے مطابق اسے 2 صوبوں میں تقسیم کردینا چاہئیے تھا۔ صوبے کے مرکز لاہور میں بیٹھ کر صوبہ چلانا نا ممکن ہے۔ سردار صاحب کو ہر وقت حرکت میں رہنا ہو گا۔ صوبے کے ہر ضلعے تک خود پہنچ کر وہاں کے مسائل کو وقت دینا ہو گا۔ افسرِ شاہی آپ کا کام کیوں کرے گی؟ اس کی نوکری 30 سال کے لیے پکی ہے۔ آپ کی نوکری کا نہیں پتہ۔ 5 سال پورے بھی کر لیے تو اگلے الیکشن میں اس کارکردگی پر جیتنا ممکن نہیں ۔ وزیرِ اعلیٰ بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وزیرِ اعلیٰ ہوں کہ باقی وزیر ان کا عوام کی خدمت کے لیے کوشاں رہنے کے علاوہ بھی کوئی کام ہو سکتا ہے؟ اگر ان کو دوسرے کوئی کام ہیں تو پھر سیاست چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے اگر آپ کے پاس عوام کے لیے وقت نہیں تو پھر کب ہو گا؟ وزیر اعلیٰ صاحب کھلی کچہریاں لگاتے، شہر شہر دورہ کرتے، ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا معائینہ کرتے، عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرتے تو بہتر ہوتا۔ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھ کر یہ صوبہ نہیں چلایا جا سکتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سردار صاحب اپنے تحصیل تونسہ پر وہ توجہ نہ دے سکے جو اس کا حق تھا۔ ایک مثال دیکھیں، پشاور سے کراچی جانے والی انڈس ہائی وےتحصیل تونسہ سے گذرتی ہے ، تحصیل تونسہ کی حدود میں 2 عدد ٹول پلازہ بھی واقع ہیں جو روزانہ لاکھوں کا ریونیو جمع کرتے ہیں۔ اور انڈس ہائی وے کا پل قمبر سے رمک کا ٹکڑاگزشتہ ڈیڑھ سال سے انتہائی خستہ حالت میں ہے۔ خاص طور پر کوٹ قیصرانی موڑ سے ٹبی قیصرانی تک انڈس ہائی وے کی جو حالت ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ہائی وے کے نام پر کھڈے ، گڑھے، دھول اور مٹی کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ موئن جو دڑو کے وقت کی کچی سڑکیں اس نام نہاد ہائی وے سے یقیناً بہت بہتر ہونگی۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ سڑک گاڑیوں اور مسافروں کے لیے اذیت کا وہ شاہکار ہے جس کی تعریف الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں! اگر بارش ہو جائے تو پھر سونے پر سہاگا ہو جاتا ہے۔ کیچڑ کے سوئمنگ پول جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں جن میں تحصیل تونسہ کی عوام ڈبکیاں لگاتی اور سردار صاحب کو دعائیں دیتی نظر آجاتی ہے۔ اگر سردار صاحب اپنے عوام کا خیال رکھ رہے ہوتے تو یقین کریں یہ سڑک ڈیڑھ سال پہلے ہی بہترین حالت میں آ چکی ہوتی۔ مگر کوئی یہاں آئے تو عوام کی حالت کا پتہ چلے! میڈیا کے توسط سے کتنے بھائی سردار صاحب کو مخاطب کر چکے ، دہائیاں دے چکے، دادرسی کے لیے فریاد بلند کر چکے مگر سردار صاحب اور ان کی انتظامیہ کے کانوں تک کوئی آواز نہیں پہنچ سکی! جس وزیرِ اعلیٰ کے اپنے علاقے کے مسائل ہی حل نہ ہو سکے ہوں وہ باقی صوبے کے مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں؟
غلامانہ خو
کہتے ہیں کہ اگر کوئی قوم کچھ صدیوں تک غلام رہے تو پھر اس قوم میں غلامی اتنی دیرپا ہو جاتی ہے کہ 100 سال کی غلامی کا اثر 1000 سال میں بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہماری قوم میں صدیوں کی محکومی کے بعد غلامی یوں رچ بس چکی ہے کہ ہم حکمرانوں کو بادشاہ سمجھتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کو شاہی خاندان سمجھتے ہیں۔ ان کی اولادیں شہزادے اور شہزادیاں سمجھے جاتے ہیں۔ انگریز یہاں سے چلے تو گئے مگر غلامی کو اس قوم کے خون میں یوں بسا گئے کہ اللہ کی پناہ! ہمارا موجودہ بیوروکریسی نظام انیسویں صدی کے انگریز کے بنائے قوانین پر ہی مشتمل ہے۔ ان قوانین میں اپنے معروضی حالات اور ضروریات کے مطابق کوئی معمولی سی تبدیلی بھی ہم نہیں لا سکے ابھی تک۔ چپڑاسی سے گورنر تک سارے عہدے انگریز کے بنائے گئے قانون کے مطابق ہیں۔ کمشنر اپنے ڈویژن کا مطلق العنان حکمران ہے۔ اس کے ماتحت صرف اسی کی خوشنودی کے لیے ہی کام کرتے ہیں، ملک و ملت کی فلاح و بہبود سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اپنے سے اوپر کا افسر خوش رکھنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ملک کا، قوم کا نقصان ہو تو کوئی پرواہ نہیں۔ افسرِ اعلیٰ کی خوشی زیادہ اہم ہے۔ اب اس کام کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کیا تا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والا سرکاری ملازم کس طرح عوام کو اپنی رعایا سمجھ لیتا ہے؟ ان کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے۔ ان کے مال کو اپنا مال سمجھ کے کھا لیتا ہے۔ کسی افسر سے ملنے جائیں تو اس کا چپڑاسی ہی بادشاہ بنا ہوتا ہے، آپ اس کو خوش کیے بنا افسر کے دفتر میں داخل بھی نہیں ہو سکتے۔
آج تک اس قوم کو یہ سمجھنے ہی نہیں دیا گیا کہ یہ نظام ایک حاکم قوم نے غلاموں کے لیے بنایا تھا ۔ اس نظام کے ہر ایک قانون میں حکمرانوں کے لیے چھوٹ اور غلاموں کے لیےسزا، تحقیر اور ذلت لکھی گئی تھی کہ یہ نشانِ عبرت بنے رہیں۔ ہم نے نیا آئین بھی بنا لیا مگر عوام کی حکمرانی یا عوام کے لیے حکمرانی نہیں اپنا سکے کہ سزا و جزا کے سارے قوانین انگریز کے بنائے ہوئے ہی نافذ رہے۔ قوانین ہمیشہ زمینی حقائق اور معروضی ضروریات و حالات کے حساب سے وضع کیے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ترامیم اور تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ تبدیل ہوتا ہے تو وہ اوپر کے طبقے کی سرکاری مراعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی عوام کا بنیادی اور اولین حق ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں اس کی فراہمی حکمرانوں کا احسانِ عظیم سمجھا اور جتلایا جاتا ہے کہ شہنشاہِ معظم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔
عوام کے حقیقی مسائل صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو خود ان مسائل سے گذر چکا ہو یا گذر رہا ہو۔ جس کا بچپن اور لڑکپن شہزادوں کی طرح گذرا ہو اس کو کیا احساس یا شعور کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ بھوک کیا ہوتی ہے ؟ بیماری کیا ہوتی ہے؟ جو ان حالات کے کرب سے کبھی گذرے ہی نا ہوں ان سے چارہ گری اور مداوے کی کیا امید!۔
کراچی اور ٹریفک کے مسائل-1
کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ کبھی یہ شہر اپنی کھلی اور کشادہ شاہراؤں کے لیے مشہور تھا۔ یہاں ٹرام چلتی تھی، لوکل ٹرین چلتی تھی، ٹانگے چلا کرتے، یہاں کی بسیں اور منی بسیں اپنی سروس کے لیے مشہور تھیں۔ آپ بہت معمولی کرائے میں پورا شہر گھوم لیتے تھے۔ اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں، یہی 30 برس پہلے ہی کا قصہ ہے۔ ارباب اقتدار کی کوتاہ نظری کہ انہوں نے بڑھتی آبادی کے تناسب سے اس شہر کی بنیادی سہولیات کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ شہر میں جلاؤ گھیراؤ کے دوران بسوں ٹیکسیوں کو جلانا معمول بنتا گیا۔ ٹرانسپورٹر ز کی دلجوئی اور ان کے نقصان کا کوئی مداوا نہ کیا گیا۔ رفتہ رفتہ سڑکوں سے بسیں کم ہونے لگیں، پھر ٹیکسیاں غائب ہوتی چلی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں CNG رکشے اتنی تعداد میں شہر میں پھیلا دیے گئے کہ دوسری کوئی سواری باقی ہی نہیں رہی۔ ایک وقت تھا جب کراچی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے لیےہر روٹ پر بسیں اور منی بسیں موجود ہوتی تھیں۔ اب چنگ چی نامی بھیانک سواری نے ان کی جگہ لے لی۔ ایسا کیوں ہوا؟
ایسا اس لیے ہوا کہ کراچی کے لیے سوچنے والا کوئی نہ رہا ۔ جن کو 50 سال پہلے اس شہر کی اگلے 70سال کی منصوبہ بندی کرنی تھی انہوں نے اپنی قبریں بھرنے اور جہنم کی آگ خریدنے کے لیے کمیشن اور اپنی جیب بھرنے پر دھیان دیا۔ یوں شہر تباہ ہوتا چلا گیا۔ سڑکوں پر تجازات پھیلتی چلی گئیں۔ سڑکیں پارکنگ کے نام پر بکنے لگیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے غائب ہونے پر عوام کو اپنی کنوینس کے لیے موٹر سائیکل اور گاڑیاں لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ شہر میں ٹریفک جام معمول بننے لگا۔ جہاں 10 بسوں میں 800 لوگ سفر کر لیتے تھے اب وہی 800لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر کئی کلومیٹر کے ٹریفک جام میں پھنسے رہنے لگے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھی تو دھواں اور شور بھی بڑھنے لگا۔ سانس کی بیماریاں بڑھنے لگیں۔ شور کی آلودگی سے ذہنی دباؤ ، چڑچڑا پن، عدم برداشت اور بلند فشار ِ خون کے امراض میں اضافہ ہونے لگا۔
آج اس شہر کو کم از کم 6 سے 10ہزار بڑی بسوں کی ضرورت ہے۔ زیرِ زمین ریلوے کی ضرورت ہے، تا کہ یہ شہر سانس لے سکے ، اس شہر کے باسی آلودگی سے نجات پا سکیں۔ لوکل ریلوے کے مربوط اور فعّال نظام کی ضرورت ہے۔ اس شہر کو جنگی بنیادوں پر ٹریفک کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس شہر کو زیر زمین ریلوے کا نظام دیا جائے۔
دنیا کے بڑے شہر جیسے نیویارک، لندن، پیرس وغیرہ کو سامنے رکھیں، وہاں زیر زمین سرنگیں آج سے 100 سال پہلے وجود میں لائی جا چکی تھیں۔ اور آج ان شہروں میں ہائی اسپیڈ ریلوے کا اعلیٰ نظام موجود ہے۔ چین کی ریل کی ترقی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہونی چاہئیے ، چین ہائی اسپیڈ ریلوے میں اس وقت دنیا میں سب سے آگے ہے۔ حتیٰ کہ پڑوسی ملک بھارت میں ممبئی اور دہلی بھی زیر زمین ریلوے سرنگوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
حکومت اپنے کردار کو سمجھے، قانون سازی کرے، عوام میں آگاہی پھیلائے۔ حکومت (Regulator) کا کام سنبھالے۔ نجی شعبے کو ٹرانسپورٹ چلانے کی ذمہ داری دے۔ کسی قسم کی کوتاہی اور انتظامی خامی کو ہر گز برداشت نہ کیا جائے۔ انتظامیہ اپنے وضع کردہ قوانین پر سختی سے عمل کروائے۔ ٹریفک پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا جائے۔ انشاء اللہ بہت جلد نتائج عوام کے سامنے ہوں گے۔
حق اور سچ
حق اورباطل
انسان دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر وہ تربیت اور پرداخت کے مراحل سے گزرتا ہوا بچپن سے جوانی میں داخل ہوتا ہے۔ اس عرصے میں اُس کی تربیت جس ماحول اور طرز پر کی جاتی ہے وہ اُسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔
اگر اس کی تربیت ایسے ماحول میں کی جاتی ہے جہاں حق اور سچ کو زندگی کا رہنما اُصول سمجھا جاتا ہے اور زندگی اسی اُصول کی بنیاد پر گزاری جاتی ہے تو اس ماحول کا پروردہ انسان ہمیشہ سچ بولنے اور حق کی حمایت کرنے کوشش میں رہتا ہے اور یہ رویہ اس کی انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے کوئی غیر معمولی کوشش درکار نہیں ہوتی۔ اس کے والدین ، دوست احباب ، رشتہ دار اور معلمین اگر بحیثیتِ مجموعی اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور ارد گرد کا ماحول حسن سلوک اور دوسروں کے احترام کا پرچار کرتا ہے تو اس کی زندگی میں بھی یہ اخلاق اور حسن ِ سلوک نمایاں ہو ں گے۔
اور اگر تو اُس کی تربیت ایسے ماحول میں کی جاتی ہے جہاں جھوٹ اور مکر و فریب کو کوئی برائی سمجھا ہی نہیں جاتا( بلکہ ان برائیوں پر فخر بھی محسوس کیا جاتا ہے ) تو اِس ماحول کا پروردہ انسان جھوٹ اور مکر و فریب کا خوگر ہو تا ہے اور ان برائیوں کا سرزد ہونا اس کے لیے کسی خلش یا بے چینی کا سبب نہیں بنتا۔ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی برائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ایسی تربیت کے حامل انسان اگر دوسرے انسان کی کسی بات سے متفق نہ ہوں تو دوسروں کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اُس کی شدید مخالفت پر اُتر آتے ہیں پھر گالم گلوچ، طنز و تشنیع اور اگر آمنے سامنے ہوں تو ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے کا عمومی آئینہ ہے اور ہمارے قومی و اجتماعی شعور و تربیت کا نتیجہ بھی۔
ایک مثال دیکھیں؛ زید کو نواز شریف پسند ہے اور اسکے قریبی عزیز کو عمران خان۔ اب اگر دونوں کی تربیت اچھے اخلاقی ماحول میں عین فطرت پر ہوئی ہے اور دونوں شعور اور فطری اعتدال سے مالا مال ہیں تو دونوں آپس میں بحث و مباحثہ بھی کریں گے مگر ایک اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے، آپس میں کبھی کسی تلخی اور نفرت کو درمیان میں نہیں لائیں گے، ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں گے، ایک دوسرے پر اپنی رائے تھوپنے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے۔ آپس کا رشتہ برقرار رکھیں گے۔کیونکہ یہی ان کا حسنِ تربیت ہے۔
اس کے بر عکس اگر ان دونوں کی تربیت جھوٹ اور مکر و فریب کے ماحؤل میں ہوئی ہو گی تو دونوں کی ہر بحث کا آغاز تو اچھا ہو گا لیکن رفتہ رفتہ گالم گلوچ اور طنز و تشنیع اس میں در آئیں گے اور بالآخر اختتام ہاتھا پائی اور توڑ پھوڑ پر ہو گا۔ ایک دوسرے سے تعلقات خراب ہو جائیں گے، نفرت اور حسد کا جذبہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اور آپس کی بول چال بھی بند ہو جائے گی۔
غیض و غضب، غصہ، حسد، کینہ، بغض، اور تذلیل ایسے جذبے ہیں جو انسان کے فطری اخلاق پر حاوی آ کر انسان کو حیوان اور شیطان بنا دیتے ہیں ۔ ان کے تابع ہو کر انسان معاشرے میں ظلم و نا انصافی کا باعث بنتا ہے۔
آپ اپنے ارد گرد دیکھیں آپ کو اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں اور ہر طرف ایسے بے شمار لوگ نظر آئیں گے جو ان جذبوں سے مغلوب ہیں اور دوسروں پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کیجئیے، ان کو سمجھا کر، ان کو روک کر، دلیل سے حسن ِ اخلاق سے اور اپنی فطری سچائی سے!!!