پاکستان اور ریاستِ مدینہ


اسلام میں ریاستِ مدینہ وہ ریاست تھی جو ہماری پیارے نبی صلی اللہ وعلیہ وسلم نے عرب کے شہر مدینہ میں قائم کی تھی۔ اس ریاست میں کچھ اصول اور ضوابط وضع کیے گئے جو رہتی دنیا اور انسانیت کے لیے مشعلِ راہ اور اسلام کے بنیادی اصول و احکام کہلائے اور ان اصولوں پر عمل پیرا ہوں تو زندگی اسلامی کہلاتی ہے۔ یہ اصول جہاں بھی لاگو کیے جائیں گے وہ ماحول اسلامی اقدار اور احکامات کا مظہر ہو گا۔ "مدینۃالنبی” میں موجود لوگ آج کے لوگوں سے افضل تھے ،ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اب بات یہ ہے کہ ان اصولوں ، قوانین،احکامات کو آپ ان کی اصل کے مطابق جب اور جہاں لاگو کریں گے، وہ ماحول اسلامی اور ریاستِ مدینہ جیسا ہو جائے گا لیکن آپ اسے "ریاستِ مدینہ” کبھی نہیں کہہ سکتے اور نا کہنا چاہیے۔ مدینہ کی وہ ریاست جس میں مسلمانوں کے کچھ فرائض اور حقوق متعین تھے۔ دوسرے کے گریبان تک پہنچنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکا جاتا تھا۔ جہاں غریب اور امیر ریاست کی نظر میں یکساں حقوق کے مالک تھے۔ نہ معاشرے میں کوئی طبقاتی تقسیم تھی اور نہ انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کا طبقاتی فرق موجود تھا۔ غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا۔ ان سے انصاف کیا جاتا اور ان کے دکھ درد اور مشکلات کا مداوا ہوتا تھا۔ جہاں ریاست کا والی عوام کا محافظ اور خدمت گذار ہو تا تھا نہ کہ عوام کو تکلیف دینے والا اور عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے والا۔ اور علیٰ ھذا القیاس۔

اب تماشہ یہ ہوا کہ عمران خان نے کہ دیا کہ میں پاکستان کو "ریاستِ مدینہ” جیسی ایک ریاست بنانا چاہتا ہوں۔ میں پاکستان میں انہی راہنما اصولوں اور احکامات پر عمل پیرا ہو کر اسے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتاہوں ۔ میری سمجھ کے مطابق اس نے دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے "ریاستِ مدینہ” بنا دی ہے اور آج سے پاکستان کا نام "ریاستِ مدینہ” ہے۔

اب ہوا یہ کہ عمران خان کے منہ سے "ریاستِ مدینہ” کا لفظ نکلا نہیں اور مفسد لوگوں نے اسے اُچک لیا اور اسلام دشمن لوگوں نے اسے اپنے مذموم اور نا پاک عزائم کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب اس لفظ کی جو تضحیک (نعوذ با للہ) اسلامی طبقہ کر رہا ہے وہ کوئی اور کیا کرے۔ اللہ کے بندو! تنقید عمران خان اور اس کی حکومت پر کرو ، اسکی پارٹی پر کرو۔”ریاستِ مدینہ” کا نام کیوں خراب کرتے ہو ؟ اسلام دشمن اور نام نہاد لبرلز کےہاتھ ایک ایسا ہتھیار آ گیا ہے جسے خود مسلمان اور اسلام پسند اپنے ہی دین اور ملک کے خلاف "استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح لا شعوری طور پر مسلمان خود "ریاستِ مدینہ” کو  اب ایک عیب اور برائی (نعوذ با للہ)کے طور پر لے رہے ہیں۔ا ب ہر دوسرا شخص پاکستان میں کچھ بھی ہو اسے "ریاستِ مدینہ” کی ناکامی اور ایک طنز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ہر سیاست دان حکومت کی کسی بھی خامی ، کمی اور کوتاہی کو ریاستِ مدینہ کی ناکامی (نعوذ با للہ) کہتے نظر آتے ہیں۔ ہر صحافی کسی بھی خرابی کا ذمہ دار ریاست مدینہ کو ٹھہراتا نظر آتا ہے۔ آج کا کوئی بھی اخبار اٹھا لیں آپ کو پہلے ہی صفحے پر لفظ "ریاستِ مدینہ” مل جائے گا اور یہ لفظ بطور طنز ہی استعمال ہوا ہو گا۔
ضرورت تھی کہ عقلِ سلیم(Common Sense)سے کام لیا جاتا اور بات کو سمجھا اور پرکھا جاتا مگر آج کی سطحیت پرستی نے ایسا نہیں ہونے دیا اور ہم پستی کے گہرے غار میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ لوگوں نے اس لفظ کو اپنی حیوانی خواہشات کو پورا کرنے اور اپنی باطنی خباثتوں کے اظہار کے لیے ایک ڈھال ، ایک بہانے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، فرض کریں ایک گلاس میں گنجائش کا نصف پانی موجود ہے، اب آپ کو عموماً 2 طرح کے جواب ملنے چاہئیں؛
جواب 1۔ پر امید/رجائیت پسند وں کا جواب گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔
جواب 2۔ نا امید/مایوس/قنوطیت پسندوں کا جواب ہو گا کہ آدھا گلاس خالی ہے۔
اب کچھ اور جواب بھی سن لیں،
جواب 3۔ یہ گلاس کسی بدنیت نے آدھا خالی کردیا ہے۔ یا یہ گلاس کسی بد نیت نے آدھا بھرا ہے۔
جواب4 ۔ یہ گلاس "ریاستِ مدینہ ” کے حکومتی دعوے کی وجہ سے آدھا خالی کر دیا گیا ہے۔

اب ان جوابوں میں پاکستانی عوام اور خواص کی ذہنی حالت کا مکمل جواب موجود ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے عمران خان(عمران خان کے علاوہ کوئی اور بھی ہوتا تو بھی ایک مسلمان کو یہی کرنا چاہیے ) کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے اسے وقت دیا جاتا کہ وہ اپنے دعوے پورے کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس کا دعویٰ بڑا ہے اور اس کے لیے مہلت بھی زیادہ چاہیے تھی۔ مگر اپنے ہی مسلمانوں نے کوئی مہلت دیے بنا اسے ناکام کرنے اور گھر بھیجنے کے لیے دشمنوں کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ اب اس مقدس اور پیارے لفظ کا مفہوم لوگوں کی غلیظ ذہنیت کی وجہ سے بدلتا جا رہا ہے۔ اللہ اس لفظ کی حرمت کو قائم و دائم رکھے۔ آمین۔ میرے پیارے ملک کے لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ اس طرح ملک اور اسلام دشمنی کا کیا جواز بنتا ہے؟ ہم کیوں دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بن رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔ اور ہمارے ملک کو دشمن کے ناپاک اور غلیظ ارادوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

حق اور سچ


حق اورباطل
انسان دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر وہ تربیت اور پرداخت کے مراحل سے گزرتا ہوا بچپن سے جوانی میں داخل ہوتا ہے۔ اس عرصے میں اُس کی تربیت جس ماحول اور طرز پر کی جاتی ہے وہ اُسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔
اگر اس کی تربیت ایسے ماحول میں کی جاتی ہے جہاں حق اور سچ کو زندگی کا رہنما اُصول سمجھا جاتا ہے اور زندگی اسی اُصول کی بنیاد پر گزاری جاتی ہے تو اس ماحول کا پروردہ انسان ہمیشہ سچ بولنے اور حق کی حمایت کرنے کوشش میں رہتا ہے اور یہ رویہ اس کی انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے کوئی غیر معمولی کوشش درکار نہیں ہوتی۔ اس کے والدین ، دوست احباب ، رشتہ دار اور معلمین اگر بحیثیتِ مجموعی اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور ارد گرد کا ماحول حسن سلوک اور دوسروں کے احترام کا پرچار کرتا ہے تو اس کی زندگی میں بھی یہ اخلاق اور حسن ِ سلوک نمایاں ہو ں گے۔
اور اگر تو اُس کی تربیت ایسے ماحول میں کی جاتی ہے جہاں جھوٹ اور مکر و فریب کو کوئی برائی سمجھا ہی نہیں جاتا( بلکہ ان برائیوں پر فخر بھی محسوس کیا جاتا ہے ) تو اِس ماحول کا پروردہ انسان جھوٹ اور مکر و فریب کا خوگر ہو تا ہے اور ان برائیوں کا سرزد ہونا اس کے لیے کسی خلش یا بے چینی کا سبب نہیں بنتا۔ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی برائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ایسی تربیت کے حامل انسان اگر دوسرے انسان کی کسی بات سے متفق نہ ہوں تو دوسروں کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اُس کی شدید مخالفت پر اُتر آتے ہیں پھر گالم گلوچ، طنز و تشنیع اور اگر آمنے سامنے ہوں تو ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے کا عمومی آئینہ ہے اور ہمارے قومی و اجتماعی شعور و تربیت کا نتیجہ بھی۔
ایک مثال دیکھیں؛ زید کو نواز شریف پسند ہے اور اسکے قریبی عزیز کو عمران خان۔ اب اگر دونوں کی تربیت اچھے اخلاقی ماحول میں عین فطرت پر ہوئی ہے اور دونوں شعور اور فطری اعتدال سے مالا مال ہیں تو دونوں آپس میں بحث و مباحثہ بھی کریں گے مگر ایک اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے، آپس میں کبھی کسی تلخی اور نفرت کو درمیان میں نہیں لائیں گے، ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں گے، ایک دوسرے پر اپنی رائے تھوپنے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے۔ آپس کا رشتہ برقرار رکھیں گے۔کیونکہ یہی ان کا حسنِ تربیت ہے۔
اس کے بر عکس اگر ان دونوں کی تربیت جھوٹ اور مکر و فریب کے ماحؤل میں ہوئی ہو گی تو دونوں کی ہر بحث کا آغاز تو اچھا ہو گا لیکن رفتہ رفتہ گالم گلوچ اور طنز و تشنیع اس میں در آئیں گے اور بالآخر اختتام ہاتھا پائی اور توڑ پھوڑ پر ہو گا۔ ایک دوسرے سے تعلقات خراب ہو جائیں گے، نفرت اور حسد کا جذبہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اور آپس کی بول چال بھی بند ہو جائے گی۔
غیض و غضب، غصہ، حسد، کینہ، بغض، اور تذلیل ایسے جذبے ہیں جو انسان کے فطری اخلاق پر حاوی آ کر انسان کو حیوان اور شیطان بنا دیتے ہیں ۔ ان کے تابع ہو کر انسان معاشرے میں ظلم و نا انصافی کا باعث بنتا ہے۔
آپ اپنے ارد گرد دیکھیں آپ کو اپنے قریبی دوستوں، رشتے داروں اور ہر طرف ایسے بے شمار لوگ نظر آئیں گے جو ان جذبوں سے مغلوب ہیں اور دوسروں پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کیجئیے، ان کو سمجھا کر، ان کو روک کر، دلیل سے حسن ِ اخلاق سے اور اپنی فطری سچائی سے!!!

سزا تو ملے گی نہیں


سزا

جج کو سزا

آج 16 فروری 2018 کے اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے۔
اس خبر سے میرے ذہن میں چند خیالات مسلسل گھومے  چلے جا رہے ہیں،
جج صاحب نے رشوت تو لے لی اور انہیں نوکری سے برخاست بھی کر دیا گیا مگر ان کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا کوئی معاملہ کہیں مذکور نہیں ہے۔
اب ان صاحب نے اتنے بڑے کیس میں صرف چند(50) لاکھ رشوت لینے کا اعتراف کیا ہے جو آج کے معروضی حالات میں ایک مضحکہ خیز رقم لگتی ہے۔
اس کیس میں وکیلوں کی فیس ہی کئی کروڑ گئی ہو گی ۔ لہذا یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اب یہ مجرم جو نوکری سے فارغ ہو چکے ہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے شاد کام ہو چکے ہیں کہ نہ کوئی سزا نہ رشوت کی رقم کی واپسی۔
ہمارے نظامِ انصاف کا المیہ یہی ہے کہ سزا کا کوئی تصوّر موجود نہیں ہے۔ اگر ہمارے نظام عدل میں جان ہوتی تو یہ مجرم آج جیل کی کال کوٹھڑی میں بند ہوتا اورجتنی رقم یہ بطور رشوت لے چکا ہے نہ صرف وہ واپس لی جاتی بلکہ اس سے کئی گنا جرمانہ بھی وصول کیا جاتا اور اسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا۔
پر صد افسوس ایسا کچھ نا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک بار پھر یہ معاشرہ اس نظام  پر ماتم کناں ہے، جہاں انصاف نا پید ہے۔۔۔

گنّا اور شوگر ملیں


گنّا اور اس کے موجودہ مسائل
گنا ہماری اہم فصلوں میں سے ایک فصل ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے ہمارے کسان کپاس کی فصل کی جگہ گنا زیادہ کاشت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اب لگتا ہے کہ وہ گنے کی کاشت کو بھی خیر باد کہہ دیں گے۔ کپاس کی فصل کے ان گنت مسائل ہیں، مختلف ضرر رساں کیڑوں سے فصل کا تباہ ہوجانا، قیمت مناسب نہ ہونا، پانی کے مسائل، فصل پر اٹھنے والے اخراجات میں مسلسل اضافہ، کھادوں کی بڑھتی قیمت، کپاس کی کاشت کے حوالے سے حکومتی عدم دلچسپی اور کسی حکتِ عملی کا فقدان، کپاس کے کاشت کے مخصوص اضلاع میں دوسری فصلوں کی کاشت،۔ ان مسائل سے تنگ آکر کسان گنے کی کاشت پر مجبور ہوا۔ آج سے سات آٹھ سال پہلے یہ فصل حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر با آسانی فروخت ہو جایا کرتی تھی۔۔ لیکن سال بہ سال اسکی قیمت گھٹنے لگی اور کبھی 250 روپے فی من بکنے والی فصل آج 182 روپے فی من کی مقرر کردہ قیمت میں بھی شوگر ملیں خریدنے سے انکاری ہیں۔ اگرچہ چینی کی قیمت 40 روپے سے 55 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی 3 اہم وجوہات ہیں؛
1۔ گنے کی فصل میں بے تحاشہ اضافہ۔کپاس کی فصل کے نقصانات سے دلبرداشتہ کسانوں نے گنے کی فصل کی اچھی قیمت ملنے کی آس اور امید میں اپنی زمینوں پر گنے کی کاشت کو ترجیح دی اور ہر سال اس رحجان میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، اب اس سال(2017) میں شوگر ملوں کی استعدادِ کار سے زیادہ گنا دستیاب ہے اور مارکیٹ کے اصول طلب اور رسد کا فرق اب اتنا ہے کہ شوگر ملیں اپنی شرائط پر گنے لے سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ شوگر ملوں کے پاس پچھلے سال کا چینی کا ذخیرہ ابھی موجود ہے۔
2۔ حکومتوں کی بے حسی اور عدم فعالیت۔ چونکہ زرعی پالیسی ہر صوبہ خود بنانے کا مجاز ہے اس لیے ہر صوبائی حکومت نے اپنے نرخ خود طے کرنے ہیں، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس وقت کسی صوبائی حکومت کو کسان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سندھ ہو یا پنجاب دونوں صوبوں میں گنے کے کاشت کاروں کو ذلیل و خواار کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں 15 ستمبر 2017 کو سرکاری نرخوں کا اعلان ہو جانا چاہیے تھا اور شوگر ملیں 15 اکتوبر سے کرشنگ سیزن شروع کرنے کی پابند تھیں لیکن حکومت کی طرف سے امدادی قیمت کا اعلان دسمبر کے اختتام پر کیا گیا اور کرشنگ کا آغاز بھی بہت دیر سے کیا گیا ۔ نیز کچھ شوگر ملیں ابھی تک کرشنگ شروع نہیں کر سکی ہیں یا کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی۔ کسانوں کے مسلسل احتجاج کے با وجود تا حال کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگرچہ حکومت نے 10 روپے فی من زر تلافی بھی شوگر ملوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔
3۔ شوگر ملز مافیا کا کسانوں کا استحصال۔ گنے کی فصل میں بے تحاشہ اضافے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب شوگر ملیں اپنی شرائط پر گنا لے رہی ہیں۔ گنے کی خریداری کے لیے وضع طریقہ کار میں بہت نقائص ہیں۔ گنے سے لدی ٹرالیوں کو بہت انتظار کرایا جاتا ہے، رقوم کی ادائیگی بہت دیر سے کی جاتی ہے۔ کچھ شوگر ملوں نے تو پچھلے سال کی رقم بھی کسانوں کو ابھی تک ادا نہیں کی ہے۔ سندھ میں حکمران خاندان کےہی گروپ کی 19 شوگر ملیں ہیں، اسے طرح پنجاب میں بھی شوگر ملوں کے مالک حکومت میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہ شوگر ملیں ایک مافیا کی طرح اپنی شرائط پر کام کر رہی ہیں۔ چونکہ یہ حکومت کا حصہ ہیں اس لیے کسانوں کا استحصال ان کے لیے آسان ہے۔ اپنی من پسند امدادی قیمت مقرر کرانا، اپنی مرضی سے کرشنگ کا آغاز کرنا وغیرہ اس کی واضح مثال ہیں۔

یوم آزادی 2017


آج 14 اگست 2017 کا دن ہے۔ پاکستان کی آزادی کے 70 سال پورے ہوئے۔
ان 70 سالوں میں ہم نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا ظلم نہیں کیے! آج ہر برائی اور ظلم ہمارے ملک میں روا ہے۔ یہ ملک اسلام اور مسلمانوں کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مگر آج اسلام اس ملک میں بدنام زیادہ ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر وہ برائی موجود ہے جو اسلام نے حرام اور ظلم قرار دی ہے۔ ہر قسم کی بد عنوانی، جھوٹ، فریب، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، قتل، زنا، شراب، لسانی و مذہبی عصبیت الغرض ہر برائی آج ہر طرف اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہزاروں جانوں کو لقمہ اجل بنا چکا ہے۔ مذہبی جنونیت اور عمومی جہالت کے ہاتھوں ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں۔ آج پاکستان میں ہزاروں مافیا پنپ رہی ہیں اور معاشرے کو اپنے مکروہ دھندوں سے آلودہ کر رہی ہیں۔
آج ہمیں ان سب برائیوں کے خلاف ایک عزم مصمم سے نبرد آزما ہونا ہی ہو گا اگر پاکستان کو بچانا اور ایک خوش حال ملک بنانا ہے۔ اپنے معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام لانا ہوگا تا کہ ہماری آئندہ نسلیں ایک پر سکون زندگی بسر کر سکیں۔
دعا ہے کہ میرا پیارا مالک ہمیں ان جہالتوں اور ظلمتوں سے نجات دلائے اور خوشحالی اور امن و سکون پاکستان کا مقدر بنائے۔ آمین