تاریخ: 27 اگست 2023
خبر: چئیر مین (پی ٹی آئی) سے ایک گھنٹے تفتیش،، سائفر گم کرنے کا پھر اعتراف
ویب ڈیسک اتوار 27 اگست 2023
قارئین کرام، اس خبر کے مطابق 3 رکنی تفتیشی ٹیم نے ایک ملزم سے تفتیش کی۔ یہاں تک خبر درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن اس میں مزید جو باتیں بتائی گئی ہیں ان سے چند سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب درکار ہے۔
تفتیشی ٹیم اور ملزم کے درمیان ہوئی گفتگو کیا قانونی طور پر خفی رکھی جاتی ہے یا اس کا پورا متن میڈیا کو پیش کر دیا جاتا ہے؟
کیا تفتیشی افسران اپنی اخذ کردہ معلومات کو جبکہ وہ ابھی صرف غیر ثابت شدہ معلومات ہی ہیں؟ مسلّم اور ثابت شدہ سمجھ کر میڈیا کو فراہم کر سکتے ہیں؟
تفتیشی ٹیم یا افسران میڈیا سے کون سی معلومات شئیر کر سکتے ہیں ؟ اور اس کا مجاز کون ہوتا ہے؟ ایک تعلقات عامہ کا افسر کس لیے رکھا جاتا ہے؟ ہر اہل کار میڈیا سے مخاطب کیوں نظر آتا ہے؟
کیا یہ تفتیشی ٹیم کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنی تفتیش کو صرف اپنے متعلقہ افسران یا عدالت کے علاوہ کسی سے بھی شئیر نہیں کر سکتے؟ حتیٰ کہ اپنے شریکِ حیات سے بھی۔ (اسی نکتے پر قاسم کے ابا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے کہ انہوں نے قومی راز اپنی بیوی سے شئیر کیے ہیں)۔
کیا اس طرح تفتیشی معلومات کا افشاء کرنا قانون کی نظر میں جرم ہے؟
ایسا کرنے والے سرکاری اہل کار اخلاقی اور قانونی مجرم شمار کیے جاتے ہیں اور اس جرم کی سزا کیا ہے؟
اور سب سے بڑھ کر کیا ایسا کرنا اخلاقی طور پر (اور شرعی طور پر کہ ہم مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں) درست ہے؟ مغرب میں تو ایسا کرنا قانوناً جرم ہے مگر ہمارے ہاں ؟
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کابینہ اجلاس ہوں یا ایسے ہی دوسرے اجلاس ان کی اندرونی کہانی کے نام پر معلومات میڈیا میں افشاء کر دی جاتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں یا پھر اپنے وقت پر سامنے لائی جانی چاہئیں مگر کوئی ذمہ داری نہیں لیتا اور سب اس جرم میں اپنا کردار پوری دلجمعی سے ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اب تو بیڈروم اور خلوت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں۔ ہم اخلاقیات کی پستیوں میں گر چکے ہیں ، اپنی ذاتی مفادات کے لیے ہر قانوں اور اخلاقی پیمانے کو بیدردی سے روندے چلے جا رہے ہیں، اور اخلاقی پستی اور تنزلی کا یہ سفر ہمیں تیزی سے پاتال کی انتہاؤں تک پہچانے والا ہے۔ ۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ آمین
سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی یہ تصاویر بھی دیکھ لیں ذرا۔۔۔۔۔