اخلاقیات کے عَلم بردار


تاریخ: 29 اگست 2023
آج جب عمران خان کی سزا معطلی کا فیصلہ سنایا گیا تو ہر طرف سے رد عمل میں بیانات کی بھرمار ہو گئی۔ اخلاقیات کے کیا پیمانے رہ گئے ہیں؟ جن سے زمانے نے اخلاقیات سیکھنی تھی ان کے اخلاق کا یہ عالم ہے تو دوسرے دنیا داروں سے کیسی شکایت؟ اس خبر کو پڑھئیے سر دھنیے اور اپنے معاشرے کی زبوں حالی کا جشن منائیے یا ماتم ! فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔۔۔
اللہ پاکستان کو اور عوام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ پاکستان پائیندہ باد۔



مہنگائی اور عوام


تاریخ: 27 اگست 2023
پاکستان میں پچھلے 15 ماہ سے مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ رہی سہی کسر جولائی اور اگست میں پیٹرولیم اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں نے نکال دی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے موجودہ مہنگائی کا مقابلہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے بھی عوام کی بہتری کے نام پر کیے جاتے ہیں اور پھر انتظامیہ اور اشرافیہ ان سے بہرہ مند و فیض یاب ہوتے ہوئے عوام کو صبر اور براداشت کا لیکچر دیتے ہوئے سارا بوجھ 70 فیصد عوام پر منتقل کر کے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تو ایک طرف زندہ رہنے کے مواقع بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ اپنی مراعات اور ملکی خزانے پر بوجھ بنے افسران اور اہل کاروں کی عیش کوشی کے بل عوام بھرنے پر مجبور ہیں۔ عوام آج احتجاج اور خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کھانا نا ممکن ہو چکا ہے۔ اچھا کھانا، پینا او ر رہائش ایک خواب بن چکا ہے۔ ہر دوسرا نوجوان ملک سے باہر جانے کی تگ و دَو میں ہے۔ بیروز گاری اور روزگار کی عدم دستیابی مسائل کو اور بڑھائے جا رہی ہے۔
آج حکومت کو راست اقدام کرتے ہوئے انتظامیہ کی ہر قسم کی مراعات کو بند کرنا ہو گا۔ اشرافیہ کو قانون اور ٹیکس کے دائرے میں لانا ہو گا۔ بصورت دیگر یہ بوسیدہ و ناکارہ نظام مزید نہیں چل سکے گا۔ عوام اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر نا یہ اشرافیہ و انتظامیہ رہے گی اور نا ان کی یہ مراعات۔ خدا را! پاکستان کا اور عوام کا سوچیں۔ عوام ہیں تو حکمران ہیں، ورنہ لاشوں پر کس نے حکومت کی ہے؟
اللہ پاکستان کو اور عوام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ پاکستان پائیندہ باد۔



قانون کیا کہتا ہے؟



تاریخ: 27 اگست 2023
خبر: چئیر مین (پی ٹی آئی) سے ایک گھنٹے تفتیش،، سائفر گم کرنے کا پھر اعتراف

ویب ڈیسک  اتوار 27 اگست 2023

قارئین  کرام، اس خبر کے مطابق 3 رکنی تفتیشی ٹیم نے ایک ملزم سے تفتیش کی۔ یہاں تک خبر درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن اس میں مزید جو باتیں بتائی گئی ہیں ان سے چند سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب درکار ہے۔ 
تفتیشی ٹیم اور ملزم کے درمیان ہوئی گفتگو کیا قانونی طور پر خفی رکھی جاتی ہے یا اس کا پورا متن میڈیا کو پیش کر دیا جاتا ہے؟
کیا تفتیشی افسران اپنی اخذ کردہ معلومات کو  جبکہ وہ ابھی صرف غیر ثابت شدہ معلومات ہی ہیں؟ مسلّم اور ثابت شدہ سمجھ کر میڈیا کو فراہم کر سکتے ہیں؟

تفتیشی ٹیم یا افسران میڈیا سے کون سی معلومات شئیر کر سکتے ہیں ؟ اور اس کا مجاز کون ہوتا ہے؟ ایک تعلقات عامہ کا افسر کس لیے رکھا جاتا ہے؟ ہر اہل کار میڈیا سے مخاطب کیوں نظر آتا ہے؟
کیا یہ تفتیشی ٹیم کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنی تفتیش کو صرف اپنے متعلقہ افسران یا عدالت کے علاوہ کسی سے بھی شئیر نہیں کر سکتے؟ حتیٰ کہ اپنے شریکِ حیات سے بھی۔ (اسی نکتے پر قاسم کے ابا پر ایک مقدمہ  درج کیا گیا ہے کہ انہوں نے قومی راز اپنی بیوی سے شئیر کیے ہیں)۔
کیا اس طرح تفتیشی معلومات کا افشاء کرنا قانون کی نظر میں جرم ہے؟
ایسا کرنے والے سرکاری اہل کار اخلاقی اور قانونی مجرم شمار کیے جاتے ہیں اور اس جرم کی سزا کیا ہے؟ 
اور سب سے بڑھ کر کیا ایسا کرنا اخلاقی طور پر (اور شرعی طور پر کہ ہم مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں) درست ہے؟ مغرب میں تو ایسا کرنا  قانوناً جرم ہے مگر ہمارے ہاں ؟

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کابینہ اجلاس ہوں یا ایسے ہی دوسرے اجلاس ان کی اندرونی کہانی کے نام پر معلومات میڈیا میں افشاء کر دی جاتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں یا پھر اپنے وقت پر سامنے لائی جانی چاہئیں مگر کوئی ذمہ داری نہیں لیتا اور سب اس جرم میں اپنا کردار پوری دلجمعی سے ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اب تو بیڈروم اور خلوت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں۔ ہم اخلاقیات کی پستیوں میں گر چکے ہیں ، اپنی ذاتی مفادات کے لیے ہر قانوں اور اخلاقی پیمانے کو بیدردی سے روندے چلے جا رہے ہیں، اور اخلاقی پستی اور تنزلی کا یہ سفر ہمیں تیزی سے پاتال کی انتہاؤں تک پہچانے والا ہے۔ ۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ آمین
سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی یہ تصاویر بھی دیکھ لیں ذرا۔۔۔۔۔

jang-news-0
jang-news-1
jang-news-2



اخلاقیات کا جنازہ۔



تاریخ: 27 اگست 2023
خبر:
(ن) لیگ کا اہم شخصیات کی خفیہ آڈیوز سامنے لانے کا فیصلہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 26 اگست 2023

قارئین اس خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے اخلاقیات کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے خفیہ طور پر ریکارڈ کی ہوئی گفتگوئیں سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دور جھوٹ اور پروپیگنڈے کا دور ہے۔ آج کے دور میں یہ حربے استعمال کرنا اب کوئی اخلاقی جرم نہیں رہا۔ کوئی بھی شخص یا تنظیم یا جماعت اب اخلاقیات سے عاری ہو کر ہر غیر اخلاقی ہتھکنڈے کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرنے لگےہیں۔ اس پر مزید لکھنا بے سود ہے۔ میرا ایک سوال ہے کہ ایسی آدیوز اور ویڈیوز کو ریکارڈ کرنے کا اخلاقی پیمانہ کیا ہے۔ کسی فرد کی ذاتی گفتگو یا بات چیت کو کسی بھی مقصد کے لیے ریکارڈ کرنا قانون کی نظر میں جرم نہیں ہے؟ کیا ایسی ریکارڈنگ بذات خود ایک جرم نہیں ہیں؟ کیا کسی برائی یا جرم کو دوسرے جرم یا برائی سے ختم کرنا  درست ہے؟ خون سے خون کو دھونا ممکن ہے؟
ہم اخلاقیات کی پستیوں میں گر چکے ہیں اور انحطاط کا یہ سفر تیزی سے جاری و ساری ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ آمین

سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی یہ تصاویر بھی دیکھ لیں ذرا۔۔۔۔۔

مسلم لیگ نون

express.pk news

انصاف اور انصاف کا قتل



تاریخ: 4 ستمبر سال 2020
خبر: کوئیٹہ کی ماڈل عدالت نے مشہور کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ مجید خان اچکزئی کو عدم ثبوت کی بناء پر ٹریفک سارجنٹ کے قتل کے مقدمے میں بری کر دیا۔
اللہ اکبر ۔۔۔۔۔اللہ کی عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ اس عدالت نے عدم شواہد کی بنا پر بریت کا فیصلہ دے دیا ہے۔
سارے ثبوتوں میں ایک ثبوت گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر موجود ملزم کا وڈیو میں نظر آنا ہے۔ اور یہ ایک نا قابلِ تردید ثبوت ہے۔ مگر وکلاء نے کہا اور عدالت نے مان لیا کہ یہ ملزم نہیں ۔۔۔۔ اس کیس سے نظامِ انصاف کی قلعی پھر کھل گئی ہے۔
پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ مجید اچکزئی ہی قاتل ہے۔ مگر اس ملک کا قانون ِ عدل و انصاف کہتا ہے کہ نہیں قاتل کوئی نامعلوم بندہ
ہے۔ کوئی فرشتہ، بھوت یا پھر ٹریفک سارجنٹ خود ؟؟؟یہاں تو وکیل یہ بھی ثابت کر سکتے تھے کے مجید اچکزئی کو تو گاڑی چلانی بھی نہیں آتی۔  مجید اچکزئی حادثے کے وقت مریخ کی سیر کرنے گیا ہوا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
سوچتا ہوں کہ اگر اسی وکیل/جج کا کوئی بھائی بیٹا اسی طرح کسی سردار کی گاڑی کے نیچے آکر مارا جائے تو پھر یہی وڈیو ثبوت اسے مجرم ثابت کر پاتا ؟؟؟ معزز جج اور ملزم کے وکلاء کا کوئی رشتہ ہوتا سارجنٹ سے تو پھر کہانی مختلف ہوتی۔ پھر ملزم سزائے موت سے بچ کر تو دکھاتا ذرا!۔ پھر انصاف و عدل کی بے رحم اور اندھی تلوار اس ملزم کو تختہ دار تک ضرور لے جاتی۔
کسی نے کہا کہ لواحقین دیت لے چکے ہیں۔۔۔ تو مقتول تو سرکاری ملازم تھا، دورانِ ڈیوٹی شہید ہوا، اسکی وارث تو سرکارِ وقت حکومتِ بلوچستان ہے، وہ کیسے اپنے ملازمین کے خون کا سودا کر سکتی ہے؟ اسے یہ حق اسے کیسے مل گیا؟ اور جو سرکار اپنے ملازمین کو انصاف نہیں دلا سکتی وہ عوام کے مال و جان کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے؟(اگر دیت/راضی نامہ ککی طرف جانا تھا تو پہلے سزا کا فیصلہ سناتے پھر راضی نامہ کرتے اور عدالت سے اپنا بندہ چھڑا لیتے )۔

اب تو نوحہ یہی ہے کہ یہاں انصاف بکتا ہے۔ دام ہوں تو پھر آپ لوگوں کو قتل کر کے بھی آزاد گھوم سکتے ہیں۔
اے اللہ ان ظالموں کو برباد کر دے جو ظلم کرتے ہیں ، ظلم کا ساتھ دیتے ہیں، ظلم کے ساتھی و آلہِ کا ر بنتے ہیں۔!۔
یا الٰہی اس مظلوم خاندان کی مدد فرما۔
سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی یہ تصاویر بھی دیکھ لیں ذرا۔۔۔۔۔

یہ خبر بھی پڑھ لیں۔۔۔۔۔